0

بیوہ بہن

” اماں! آپ نے ابا کی وفات کےبعد اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ کیوں نہ لیا؟” اذکیہ نے ماں سے سوال کیا تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کے بولیں
” جب تمہارے ابا زندہ تھے تو سب بہت اچھے تھے ان کے آنکھ بند کرنے کی دیر تھی سب نے گرگٹ کی طرح آنکھیں بدل لیں۔ وہ رشتے دار جو میری آمد پہ پلکیں بچھاتے تھے انہیں میرا آنا بوجھ لگنے لگا تھا۔ابا کی جائیداد میں سے سب نے حصہ لے لیا اور مجھ سے بھائیوں نے یہ کہہ کر میرا حصہ اپنے نام لکھوا لیا کہ چھوٹے کو ضرورت ہے۔”
” اور کسی نے یہ نہ سوچا کہ بیوہ بہن جو کرائے کے گھر پہ رہ رہی ہے جس کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جس کا واحد ذریعہ آمدن تھوڑی سی پینشن ہے اسے بھی گھر اور بچوں کے خرچے کےلئے پیسہ چاہیے ہے۔” اذکیہ نے تلخی سے کہا تو اماں نے تاسف سے سر ہلا کر کہا۔
” چھوڑو بیٹا! اب ان باتوں کا کیا فائدہ۔تم سب پڑھ گئے ہو  میرے لیے یہی بہت ہے۔”
” مگر یہ سراسر نا انصافی ہے اماں۔”
” میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔تم بھی اس پہ سر کھپانا بند کرو۔” یہ کہہ کر اماں نمازپڑھنے اٹھ گئیں۔نماز کےبعد دعا مانگنے بیٹھیں تو ذہن میں جیسے فلم سی چل گئی۔
   سوتیلی ماں نے آتے ہی ظلم ڈھانے شروع کر دئیے۔ان کے بچے بھی دونوں بہنوں نے ہی پالے تھے مگر سوتیلی ماں کبھی بھی ان سے خوش نہ ہوئیں۔شادی کےبعد ان کے میاں نے انہیں ملکہ بنا کر رکھا ان کے اچھے حالات دیکھ کر سب ان کے سگے بن گئے۔ان کی خوب آو بھگت ہوتی کیوں نہ ہوتی جب آتیں سب کےلئے ڈھیروں تحائف لاتیں۔جس کسی کو شہر میں کام ہوتا انہی کے گھر قیام کرتا۔لیکن میاں کے اچانک انتقال کےبعد سب نے مشترکہ طور پر چھوٹے بھائی کو جو کنوارہ تھاان کےساتھ رہنے کی ذمہ داری سونپی ۔جو چھ ماہ بعد شادی کر کے الگ ہو گیا تو انہوں نے سوچا
” جب اللہ نے سر کا سائیں لے کر اکیلا کر ہی دیا ہے تو کسی اور سے کیا توقع رکھنی۔”
    میاں کی جو گریجویٹی ملی وہ بھائی نے گیس ایجنسی کی سیکورٹی دینے کےلئے ادھار لی اور ایک ماہ بعد واپس کرنے کا بولا ۔انہوں نے سوچا بھائی ہے فراڈ تھوڑے ہی کرے گا چیک لکھ کر دے دیا۔کچھ ماہ بعد پیسوں کی ضرورت پڑی بینک گئیں چیک لکھ کر دیا تو مینیجر نے بتایا۔
” آپ کے اکاونٹ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔”
یہ سن کر دل تھام کر رہ گئیں۔بھائی کے گھر پہنچیں اور رقم کا پوچھا تو بولے۔
” وہ میں بھول گیا تھا۔” اور وہ ایسا بھولا کہ دس سال بعد یاد آیا تو بیس ہزار دے کر سرخرو ہو گیا۔وہ بھی ان کے ہاتھ میں دینے کی بجائے دوسرے بہنوئی کو دے دیے جو بہن کےساتھ ہی آئے تھے۔
” بھئی روحانہ تمہارے بہنوئی کو بزنس کےلئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ہم رومان سے یہ پیسے لے رہے ہیں جلد ہی تمہیں واپس کر دیں گے۔” اور وہ ہکا بکا دیکھتی ہی رہ گئیں یہ بھی نہ کہہ سکیں کہ تم سب ہی ضرورت مند ہو سوائے میرے۔کوئی میرا اور میرے بچوں کا بھی تو سوچے۔
یہ وہی بہن تھی جن کے تین بچے ان کے گھر رہ کر پڑھے تھے اور جنہیں یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ کبھی یہ ہی پوچھ لیں کہ تمہارے پاس کرائے، بل، بچوں کی فیس کے بھی پیسے ہیں یا نہیں۔ابھی انہی سوچوں میں گم تھیں کہ اذکیہ نے آواز دی۔
” اماں بڑے ماموں کا فون آیا ہے۔گھر بلا رہے ہیں۔ویسے خیر تو ہے پچھلی گلی میں گھر ہے ان کا کبھی اتنی توفیق تو ہوتی نہیں کہ آ کر بہن کا حال ہی پوچھ لیں۔آج گھر آنے کی دعوت دے رہے ہیں جانے کیا ماجرا ہے۔”
” بس کر دے کمبخت۔ہر وقت میرے بھائیوں کے پیچھے ہی پڑی رہتی ہے۔” یہ کہہ کر اماں نے اسے ساتھ لیا اور بڑے بھائی کے ہاں پہنچ گئیں۔ابھی جا کر بیٹھی ہی تھیں کہ ماموں ممانی اور ان کی بیٹی انہیں گھیر کر بیٹھ گئے اور ماموں گویا ہوئے۔
” روحانہ سنا ہے اذکیہ کا بی اے کا رزلٹ آ گیا ہے۔ تم ایسا کرو میرے بیٹے کےساتھ اس کی شادی کر دو۔بی ایڈ ہم خود کروالیں گے۔” ان کے حکم شاہی کو سن کر اماں کے بولنے سے پہلے ہی اذکیہ بول پڑی۔
” ماموں جہاں اماں نے بی اے کروا لیا ہے وہاں ایم اے بھی کروا لیں گی۔مجھے نہیں کرنی آپ کے بیٹے سے شادی۔پچھےدس سال میں کسی کو یاد نہ آئی بہن بھانجے بھانجیوں کی اب آ گئے ہیں آپ حق دار بن کر۔” اس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے نکل آئی۔ماموں مغلظات بکتے رہے۔اماں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں