ازقلم: ذوالفقار علی بخاری
”ارے۔۔۔ارے۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔۔آج توگورنمنٹ بوائز ہائیرسیکنڈری اسکول، لنڈو میں اکشے کمار آیا ہوا ہے۔“
جماعت ششم کے طالب علم محمد علی نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا تو ارد گرد جمع طلبہ اسکول کے مرکز ی دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔
”یہ بڑی اداکاری کر رہا ہے۔“واجد علی بروہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اِس کے ابوجی ڈراموں میں جو کام کرتے ہیں۔“ سلمان نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
”تمھیں جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے۔“
اسد علی نے سلمان کو گھورتے ہوئے کہا۔
ابھی اسد علی کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ اویس بول اٹھا۔
”تم ہمارے ساتھ کتب خانے میں جاتے ہو۔وہاں اچھی اچھی باتیں پڑھ کر بھی کچھ نہیں سیکھا ہے۔“
”چھوڑو۔۔۔دوستو۔۔۔کیا بحث لے کر بیٹھ گئے ہو۔“ سکندر علی نے ماحول بدلنے کی کوشش کی۔
”یہ کتاب میں تمھارے لیے بطور تحفہ لے کر آیا ہوں۔“
جماعت ششم کے طالب علم اکشے کمار نے شان بے نیازی سے اپنے دوستوں کے گروپ میں آتے ہی ایک کتاب سلمان کی طرف بڑھائی۔
سلمان نام کو دیکھ کر بہت زیادہ چونک گیا توزکریا،محمد رضا، امیر علی، سرفراز، پرتاب کمار، ریحان علی،ناصر علی جلبانی، محمد ذیشان، احسن علی،دلشاد ملانو،صدام حسین، فیضان،مجاہد،مظہر،اعجاز علی مہر،علی بخش، امداد علی،کامران علی،تراب علی کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی کتاب جب واجد ہی بروہی کے ہاتھ میں آئی تو اُس نے کتاب کا نام باآواز بلند پڑھا۔
”جھوٹ کی سنگینی اور اُس کی اقسام۔“
”یہ تو پروفیسر ڈاکٹر فضل الہیٰ صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔اسے میں نے اسکول کے کتب خانے میں دیکھا ہے۔“زکریا نے کافی دیر سوچنے کے بعد کہا۔
”میں نے بھی اسکول کے کتب خانے میں ”جھوٹ اور بھوک“نامی کتابچہ پڑھا ہے۔“
اسد علی نے کتاب کو پھر سے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
”میں کافی دیر سے آپ سب کی باتوں کو سن رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ انڈس کاٹیج لائبریری کے تعاون سے قائم ہونے والے کتب خانے کی بدولت آپ سب میں کچھ نہ کچھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔“
اسکول ہیڈماسٹر صاحب کی اچانک آواز سنائی دی تو سب طلبہ حیران ہو چکے تھے کہ وہ اُن کی گفتگو کب سے سن رہے تھے۔ اُن کے ساتھ کتب خانے کے انچار ج بھی موجود تھے۔
”جناب! کتب خانے میں جانے سے سوچ کا دائرہ وسعت اختیار کرتا ہے اورہمیں بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ میں نے اسلام کے بارے میں پڑھا تو سوچا اپنے دوست کے لیے اسلامی کتاب لے آؤں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ کتاب کسی اورکی سوچ بدل دے گی۔“
اکشے کمار کی بات نے سب طالب علموں کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔
ابھی وہ مسکرا رہے تھے کہ اچانک چھٹی کی گھنٹی بجی۔اور سب اپنے بستے اٹھائے اسکول کے مرکزی گیٹ کی جانب بڑھے۔
۔ختم شد
0
بہت خوب صورت کہانی