0

” نادان محبت “

ازقلم

”صبا اظہر “

آج طوبا کا ڈبل امتحان تھا ۔ ایک سکول میں پرچوں کا امتحان اور دوسرا محبت میں وفاداری کا امتحان ۔۔۔۔۔۔ اور تیسرا والدین سے ایمانداری کا ۔۔۔۔۔۔ اک غیر لڑکے کی محبت میں بہک کر اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے کر وہ آفریدی کے ساتھ کورٹ میرج کرنے والی تھی ۔

ہاتھ میں کتاب اٹھائے ، دائیں کندھے سے کالج بیگ لٹکائے افراتفری میں ڈاہننگ ٹیبل پر آ بیٹھی اور تیزی سے ناشتہ کرنے لگی ۔

” آرام سے ناشتہ کرو کوئی پیچھے لگا ہے کیا _ اور تمہارا بیگ کیوں اتنا پھولا ہوا ہے آج تو تمہارا امتحان ہے پھر کالج میں بیگ لے جانے کی کیا ضرورت ہے _؟ “

شاہستہ بیگم پہلے سے ڈاہننگ ٹیبل پر موجود تھیں اسے افراتفری میں ناشتہ کرتا دیکھ کر گردن ترچھی کرتے بولی ۔ طوطا کا کچھ دنوں سے بدلہ رویہ وہ بخوبی نوٹ کر رہی تھیں ۔
ماں کے سوال پر وہ خوفزدہ ہوئی ۔

”آپ بہت سوال کرتی ہے امی ۔۔۔۔۔۔ ظاہر سی بات ہے بیگ میں کتابیں ہوں گی تو وہ پھولے گا ہی ۔“

ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس اس نے ٹیبل پر رکھا اور ماں سے نظریں چرا کر رعب انداز میں بولی ۔ اس سے پہلے شائستہ اس سے مزید کچھ پوچھتی یا کہتی وہ ماں سے نظریں چراتے کرسی سے اٹھی اور وہاں سے جانے لگی ۔

” ناشتہ تو مکمل کر لو پہلے ۔“

شائستہ نے بلند آواز میں کہا ۔ وہ ماں کو ان سنا کرتی وہاں سے جا چکی تھی ۔

بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی ۔ اسکے چہرے پر منڈلاتے خوف کے بادل مزید گہرے ہوئے جب کار اس کے سامنے رکھی ، کار کا دروازہ ا کھلا ۔ وہ کار میں بیٹھنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی مگر اسے ہر حال میں کار میں بیٹھ کر اپنی منزل تک پہنچنا تھا لحاظہ خود کو مضبوط بناتے وہ کار میں بیٹھی کچھ منٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اسلام آباد کے کوٹ میرج آفس میں موجود تھی جہاں وہ آفریدی کے ساتھ خفیہ نکاح کے بندھن میں بندھنے والی تھی _

” امی ابو مجھے معاف کر دینا میں نے کبھی سوچا نہیں تھا آپ دونوں کی دعاوں سے محروم ہو کر مجھے ایسے چھپ کر نکاح کرنا پڑے گا _ کاش آپ آفریدی کو دل سے قبول کر لیتے اور ہم دونوں کی شادی کروا دیتے تو شاید آج کورٹ میرج کی نوبت نہ آتی _ ”
نکاح کے بندھن میں بندھتی طوبا کو اپنے والدین کی کمی شدت سے محسوس ہوئی ۔ طوبا نے رجسڑ فارم پر کانپتے ہاتھ سے دستخط کر دیئے_ نکاح کے بعد مبارکباد کا سلسلہ جاری ہوا _ طوبا کے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ بکھری تھی_

” تم پریشان مت ہو طوبا اب ہم شرعی حیثیت سے میاں بیوی ہیں ۔ تمہارے گھر والے اب تمہاری شادی کہیں اور زبردستی نہیں کروا سکیں گے اس لئے اپنے دل و دماغ سے ساری الجھنیں ختم کر دو_”

آفریدی کے کہنے پر طوبا نے ہاں میں سر ہلا دیا_ نکاح کے بعد آفریدی نے طوبا کو بس سٹاپ پر ڈراپ کیا اور خود اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے چلا گیا_

” آفریدی ہم نے کورٹ میرج کر کے کہیں غلطی تو نہیں کر دی جب سے ہم نے خفیہ نکاح کیا ہے تب سے میرا دل بہت بے چین رہنے لگا ہے ۔ دل میں عجیب سے ہول اٹھتے رہتے ہیں ۔ تم آنٹی کو ہمارے نکاح کے بارے میں کب بتاؤں گے تاکہ وہ میری امی سے ہمارے بارے میں بات کر سکیں ۔“

نکاح کے تین ماہ گزر جانے کے بعد طوبا مزید پریشان رہنے لگی تھی ۔ گھر کالج کا بہانہ بنا کر وہ آفریدی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی اس سے اپنی پریشانی ڈسکس کر رہی تھی ۔ آفریدی کا جواب سن کر وہ مزید مایوس ہوئی ۔

” نکاح سے پہلے تمہیں یہی غم ستاتا رہتا تھا کہ ہمارا نکاح کب ہو گا اب جب نکاح ہو گیا ہے تو تمہیں یہ غم ستا رہا ہے ہماری رخصتی کب ہو گی عحیب پاگل لڑکی ہو تم طوبا”
آفریدی نے اکھڑے لہجے میں جواب دیا_ ہر روز اک ہی ٹاپک سن کر وہ طوبا اور اسکی باتوں سے بور ہونے لگا تھا_ طوبا خاموش ہو گئی کیونکہ خاموش ہونا اب اسکی مجبوری تھی۔

آفریدی ایک جواری لڑکا تھا ۔ جب تک وہ دن میں ایک دو بار تاش کی بازی نہ لگا لے اسے چین نہیں ملتا تھا ۔ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ محلے کی چائے کی دکان پر بیٹھا وہ جوا کھیل رہا تھا۔ کچھ امیر زادوں نے ارسلان کے کہنے پر آفریدی کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا _ جوئے کی پہلی بازی میں آفریدی نے پچاس ہزار کی رقم جیت لی دوسری بازی دو لاکھ کی تھی _ ارسلان کے کہنے پر آفریدی نے دوسری بازی بھی لگا دی خوش قسمتی سے وہ بھی جیت لی تیسری اور آخری بازی پانچ لاکھ کی تھی ۔ وہ پہلی بار اتنی بڑی بازی کھیل رہا تھا اس لئے تھوڑا اکچھا رہا تھا_

“اتنے اچھے موقعے دوبارہ نہیں ملتے آفریدی ۔ موقع اچھا ہے لگا لو بازی جیت تمہاری ہی ہو گی_”
آفریدی کے بغل میں بیٹھا ارسلان اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا _

ارسلان کی حوصلہ افزائی سے آفریدی نے آخری بازی کے لئے ہاں کر دی_ کھیل کے آغاز میں سستی ظاہر کرتا بلال اپنی چستی سے جیت کے بہت قریب تھا_ پل بھر میں آفریدی کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بلال نے پانچ لاکھ کی بازی بہت آسانی سے جیت لی _ آفریدی اپنا سر پکڑے رہ گیا_پانچ لاکھ آفریدی نے امریکہ جانے کے لئے جمع کئے تھے _ اپنی بےوقوفی سے اس نے پانچ لاکھ روپے کھو دیئے _ وہاں اکھٹا ہوا محلے کا ہجوم سارا تماشا دیکھ رہا تھا_

ڈنر کے ٹائم ڈاہننگ ٹیبل پر زبیر نے دن میں ہوا آفریدی کا سارا قصہ گھر والوں سے شیئر کیا _ بھائی کی باتیں سن کر طوبا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں _ آفریدی کی جوئے کی عادت سے وہ لاعلم نہیں تھی مگر وہ اتنی بڑی رقم جوئے میں لگا دے گا اسکے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا _

” آفریدی کی انھی حرکتوں کی وجہ سے میں نے طوبا کے رشتے سے انکار کیا تھا _ بالآ کوئی سوچے میری پھول جیسی نازک بچی کے لئے ایک وہی جواری لڑکا اس دنیا میں بچا ہے _”
پلیت میں سالن ڈالتے رحمان صاحب نے کہا_ طوبا شرمندہ نگاہوں سے باپ کو مطمئن چہرہ ٹکنے لگی_

آفریدی کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی ایک ماہ بعد اسے ہر حال میں امریکہ جانا تھا گھر والوں نے اسے ایک روپیہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا دوست احباب سب اسی جیسے جواری اور نکمے تھے _ طوبا اسکے پاس آخری چانس تھا _ شاہستہ بیگم کی کچھ دن پہلے ہی تین لاکھ کی کمیٹی نکلی تھی _ شاہستہ بیگم نے آفریدی کی ماں نوشین بیگم کے ساتھ ہی کمیٹی ڈال رکھی تھی _ یہ بات آفریدی سے چھپی ہوئی نہیں تھی _

” مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے طوبا تم میری کچھ مدد کر سکتی ہو _ میں تمہارے سر کی قسم کھا کر کہتا ہوں تمہارے سارے پیسے واپس کر دوں گا پلیز کسی طرح میری مدد کر دو _”

رات کے گیارہ بجے وہ دونوں ہر زور طوبا کے گھر کی چھت پر چپ کر ملتے تھے _

” میں اتنے پیسے کہاں سے لاؤں آفریدی _ _ ؟ ہزاروں کی بات ہوتی تو میں کچھ کرتی مگر تم مجھ سے لاکھوں روپے مانگ رہے ہو _”
آفریدی کی باتوں نے طوبا کو پریشان کر دیا تھا _ وہ آئے دن اس سے پیسوں کی فرمائش کرتا کبھی امی کے پیسے چوری کرنے کو کہتا تو کبھی اپنی کسی دوست سے ادھار مانگنے کو کہتا _ طوبا جب بھی اس سے نکاح کی بات سب کے سامنے لانے کو کہتی وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ تمہارے گھر والے ہم دونوں کو جان سے مار دیں گے اس لئے خاموش رہو _ طوبا نے جب پیسے چوری کرنے سے منع کر دیا تو آفریدی اسے بےوقوف بنانے کا نیا فارمولا ایجاد کرتے بولا _

” میں یہ سب ہمارے لئے کر رہا ہوں طوبا _ _ میں تمہیں سرپراہز دینا چاہتا تھا مگر لگتا ہے اب تمہیں سب سچ بتانا ہی پڑے گا _ میں اکیلا امریکہ شفٹ نہیں ہوں گا تمہیں بھی اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا _ جانے سے پہلے میں خود تمہارے ابو بھائی کو ہمارا نکاح نامہ دیکھاوں گا _ پھر وہ کچھ نہیں کر سکیں گے زیادہ سے زیادہ مجھے ماریں گے کوئی بات نہیں تمہارے لئے میں مار بھی برداشت کر لوں گا _ بس اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں امی کے پیسے چرا لو صرف کچھ دن کے لئے میں وعدہ کرتا ہوں جانے سے پہلے تمہاری امی کے پیسے واپس کر دوں گا”

آفریدی اپنے انمورشنل لہجے سے اسے کانچ کی بوتل میں اترانے میں کامیاب ہو گیا _ طوبا جلد سا جلد اس خفیہ نکاح سے آزاد ہونا چاہتی تھی _ ایک راستہ نظر آنے پر اس نے ہاں میں سر ہلا کر اپنی رضامندی ظاہر کر دی_ تین لاکھ روپے طوبا سے حاصل کر کے آفریدی بہت خوش تھا باقی پیسوں کا انتظار بھی اس نے آمنہ کے ذریعے کر لیا تھا _ آمنہ اسکی تایا زاد کزن تھی _ جس سے وہ بہت جلد منگنی کرنے والا تھا_ آمنہ نے آفریدی کو پیسے اسی شرط پر دیئے کہ جانے سے پہلے وہ اس سے منگنی کر کے جائے _ اپنے خواب پورے کرنے کے لئے وہ دو لڑکیوں کی زندگیوں، انکے جذبات سے کھیل رہا تھا _
آفریدی نے امریکہ کا ٹکٹ کروا لیا تھا _ طوبا سے اسکا پاسپورٹ بھی لے لیا ۔ اور اسے اس کے نام کا جھوٹا ٹکٹ دیکھا کر اسے مطمئین بھی کر لیا _

طوبا آفریدی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چھت پر چہل قدمی کر رہی تھی _ تنہائی میں کچھ وقت ساتھ گزارنے کی خواہش انھیں بہت مہنگی پڑنے والی تھی_ اتفاقا زبیر تازہ ہوا کھانے کی عرض سے چھت پر آیا سامنے اپنی بہن کو آفریدی کے ساتھ دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہوا _ زبیر کو دیکھ کر ان دونوں کے چہرے کا رنگ اڑا _ طوبا کا ہاتھ چھوڑ کر آفریدی اپنی چھت کی طرف بھاگ گیا _ طوبا وہی بےساخت حالت میں کھڑے ہوئے اپنی زندگی کی دعائیں مانگنے لگی _ طوبا کو نیچھے لے جا کر زبیر نے اسکی خوب پٹائی لگائی اسکے چینخنے اور رونے کی آوازیں سارا محلہ ان کے گھر کی دیواروں سے کان لگا کر سن رہا تھا _ رحمان صاحب زبیر کو وقت پر نہ روکتے تو وہ طوبا کو جان سے مار دیتا _ زبیر کا غصہ اس وقت تک ٹھنڈا نہیں ہونے والا تھا جب تک وہ آفریدی کی پٹائی نہیں لگا لیتا تھا_ اگلے دن مواقع ملتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر زبیر نے آفریدی کی اچھی دھلائی کی _ پورے محلے میں ان دونوں کے چرچے ہونے لگے ۔ زبیر اپنی بہن کو آفریدی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ جانے پر ان دونوں کو مار پیت رہا ہے _ آفریدی کے دل میں زبیر سے اپنے بدلے کی آگ روشن تھی وہ ہر حال میں اپنا حساب برابر کرنا چاہتا تھا _ آمنہ سے منگنی بھی آفریدی نے زبیر سے انتقاما کی_ رحمان صاحب کے کہنے پر شاہستہ بیگم نے طوبا کے لئے رشتے تلاش کرنا شروع کر دیئے _ آئے دن کوئی نہ کوئی مہمان طوبا کو دیکھنے گھر آ جاتا_ زبیر اور آفریدی کے درمیان ہوئی لڑائی سے آفریدی کا رویہ طوبا سے تبدیل ہو گیا _ اس نے طوبا کے مسیج اور کال کا جواب دینا تک چھوڑ دیا _ محبت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والا انسان زرا سی مشکل درپیش آنے پر اسے اکیلا تنہا چھوڑ گیا_

* * * *

ضرورت سے زیادہ ذمہ داریاں انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں _ اس بات کا احساس احمد کو تب ہوا جب آہینے کے سامنے کھڑے ہوئے اس نے اپنے بالوں میں بڑھتی سفید چاندی دیکھی _ آہینے میں احمد کو چھتیس سال کی عمر میں پینتالیس سال کا بوڑھا شخص دیکھائی دیا اور کیوں نہ دیکھائی دیتا آج سے دس سال پہلے جب وہ پچیس سال کا تھا اپنے باپ کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد اس نے بھائی ہونے کے ساتھ باپ کا فرض بھی ادا کیا _ باپ کی ذمہ داریاں نبھانا کوئی آسان کام نہیں باپ کا فرض ادا کرتے احمد نے بہت سی قربانیاں دی تھیں _ پچیس سال کی عمر سے چھتیس سال تک سفر کے دوران اس نے اپنے بارے میں کچھ نہیں سوچا اپنی شادی کی عمر ہونے کے باوجود اس نے شادی نہیں کی صرف اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں انجان لڑکی اپنی کمر ظرفی سے اس کہ فرض کی ادائیگی میں روکاوٹ پیدا نہ کر دے _ اس لئے سب سے پہلے اس نے اپنے سے اک بڑی بہن اور اپنے سے دو چھوٹی بہنوں کو دھوم دھام کے ساتھ بیاہ کر انھیں اپنے اپنے گھروں کا کیا _ بہنوں کے فرض ادا کرنے کے ساتھ وہ اپنے سے دو چھوٹے بھائیوں کا فرض ادا کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹا انھیں پڑھا لکھا کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا _ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے کرتے اب وہ خود کو تنہا تنہا محسوس کرنے لگا_ وقت پر کھانا ، کپڑے سب مل جاتے نہ ملتا تو کسی کا پیار، کسی کا وقت _ اسکی تنہائی اور اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے اس کی بھاوجوں نے اسکی شادی کا فیصلہ کیا_

احمد کی پہلے نمبر والی بھاوج نے طوبا کے ساتھ اسکی بات پکی کر دی _ طوبا کم عمر تھی اس بات پر احمد پریشان اور الجن کا شکار تھا _ وہ اپنی حیثیت سے بخوبی واقف تھا _ نا وہ شکل صورت کا اچھا تھا نہ اسکے پاس اتنا روپیہ پیسہ تھا کہ کوئی ماں باپ اپنی بیٹی کا ہاتھ ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیں جو انکی بیٹی سے تیرہ سال بڑا ہو_ اسی الجھن کو دور کرنے کے لیے آفس سے واپسی پر سیدھا احمد نے اپنی بھاوج کے کمرے کا روخ کیا _ کمرے کے اندر سے آنے والی اسکی بھاوج کی آوازوں نے اسکے قدم وہی روک دیئے _ اپنی بھاوج کی باتیں سن کر اسکی آنکھیں نم ہونے کے بنا نہ رہ سکی _ وہ انھی الٹے قدموں اپنے کمرے کی طرف مڑا_ بھاوج کی باتیں ابھی بھی کانوں میں گونج رہی تھیں _

” میں مزید اب آپ کے بھائی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ان کی خدمت کر کر کے تھک چکی ہوں _ اگر اللہ اللہ کر کہ اک لڑکی رشتے کے لیے مان گئی ہے تو ان سے کہیں زیادہ نخرے مت کریں اور خاموشی سے اس رشتے کے لیے ہاں کر دیں ورنہ اپنا بندوبست کہیں اور کر لیں _”
کمرے میں پر طرف سناٹا اور اس سناٹے میں چھپی تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دور رہی تھی _ اس تنہائی سے بچنے کے لیے اس نے سڑک کا روخ کیا جہاں ہر وقت چہل پہل لگی رہتی ہے _ مگر آج اسکی زندگی کی طرح سڑک بھی خالی تھی _
اپنی تنہائیوں اور اکیلے پن سے ہار مانتے ہوئے احمد نے شادی کے لیے ہاں کر دی_

* * *

” امی ابو ایسا کیسے کر سکتی ہیں میرے ساتھ _ _ _ میری رضامندی جانے بنا ابو میرا رشتہ مجھ سے دو گناہ بڑے عمر کے آدمی کے ساتھ کیسے پکا کر سکتے ہیں _” شاہستہ بیگم کے کہے الفاظ سن کر طوبا خود کو زمین بوس ہوتے محسوس کرتے حیرانی سے پھٹ کر اونچی آواز میں بولی _

” مجھ سے یہ سوال پوچھنے کا حق تم اسی دن کھو چکی تھی طوبا جب تمہارے بھائی نے تمہیں آفریدی کے ساتھ رات کے آدھے پہر تنہائی میں اک ساتھ پکڑا تھا_ شکر کرو تمہارے ابا نے تمہیں تمہارے بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے سے روک دیا تھا ورنہ آج تمہاری لاش قبرستان کے کسی کونے میں لاوارثوں کی طرح دفن ہوتی _ اب اگر غزت کے ساتھ وہ تمہیں بیاہ ریے ہیں تو انکے فیصلے کا احترام کرو_”

“امی میں یہ نکاح نہیں کر سکتی _ _ _ تین ماہ پہلے میں آفریدی کے ساتھ کورٹ میرج کر چکی ہوں _ اب آپ ہی باتیں میں نکاح پر نکاح کیسے کر سکتی ہوں_ ”
طوبا نے اس امید کے ساتھ اپنی ماں کو سچ بتایا کہ وہ اس مسئلے کو سمجھتے اسکی مدد کریں گی مگر شاہستہ بیگم کی خاموشی اور عام لہجے نے طوبا کو مزید مشکل میں ڈال دیا_ طوبا کی بات بات پر جھوٹ بولنے کی عادت سے شائستہ بیگم بخوبی واقف تھیں _ اس بار بھی اسکے سچ کو جھوٹ سمجھ بیٹھی _ وہ آفریدی کی اصلیت سے بھی بخوبی واقف تھیں _ جو شخص سب کے سامنے اپنی محبت کو تسلیم کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو وہ اس لڑکی سے نکاح کیا خاک کرئے گا_
” زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے _ آفریدی تم سے کہیں نکاح کر نہ لے _ اسکی امی کل ہی اپنے بیٹے کی منگنی کی مٹھائی دے کر گئی ہیں _ فریج میں پڑی ہے اپنے نکاح اور اسکی منگنی کی خوشی میں کھا لینا _”
شاہستہ بیگم طوبا پر طنز کرتے اسے حقیقت سے آگاہ کرتی وہاں سے چلی گئیں _ آفریدی کی منگنی کی خبر سن کر طوبا کے قدم لڑکھڑائے _ اس نے اپنے ہاتھ کی کپکپاتی انگلیوں سے آفریدی کا نمبر ڈائل دیا
آپکا ملایا ہوا نمبر اس وقت بندہے برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کریں _”
فون آپریٹر کی آواز سن کر طوبا کی آنکھوں میں روکے آنسو بہنے لگے _ ہاتھ میں اٹھایا موبائل بیڈ پر پھینک کر تیز قدموں کے ساتھ آفریدی کے گھر کی طرف بڑھی _
آفریدی کے گھر پہنچ کر آمنہ سے آفریدی کی امریکہ روانگی کی خبر سن کر طوبا کو حیرانی کا جھٹکا لگا _ یہ خبر بھی طوبا کے سر پر آسمان کی طرح آ گری کہ آمنہ اب آفریدی کی منگیتر ہے_ اس کے ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا آفریدی اس کے ساتھ اتنا بڑا فراڈ بھی کر سکتا ہے _ نکاح کے تمام کاغذات آفریدی کے پاس تھے_
آفریدی دو دن بعد امریکہ جانے والا تھا مگر وہ طوبا کو دھوکہ دے کر کل رات ہی امریکہ کے لئے روانہ ہو گیا _
طوبا کو آفریدی نے صرف تاش کے پتے کی طرح استعمال کیا_ ہارا تو تب بھی پھینک دیا ، جیتا تو تب بھی پھینک دیا _

طوبا کا رو رو کر برا حال تھا _ وہ بار بار ماں کو یقین دلانے کی ناکام کوششیں کر رہی تھیں کہ وہ آفریدی سے پہلے ہی نکاح کر چکی ہے _ مگر شاہستہ بیگم اسے سنجیدہ نہیں لے رہی تھیں _ نکاح کی تاریخ مقررہ تھی _
” زبیر پہلے ہی طوبا پر غصہ ہے اگر اسے طوبا کی باتوں کی ذرا سی بھی بھنک لگ گئی تو وہ اسے اور خود دونوں کو جان سے مار ڈالے گا ” شاہستہ بیگم کی زبان کو زبیر کے غصے نے تالا گیا دیا تھا وہ اپنے اندر ہی یہ جنگ اکیلے لڑتی رہیں_ انھیں نہ ہی طوبا پر یقین رہا اور نہ ہی اسکی باتوں پر _ دل کو یہی تسلی دے کر خاموش ہو گئی کہ طوبا اس نکاح سے بچنے کے لئے ڈرامے لگا رہی ہے_

* * * *

آج ان دونوں کے نکاح کا دن تھا _ نکاح نامے پر دستخط کرنے کے بعد احمد کو اپنے اندر کچھ تبدیلی محسوس ہونے لگی اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اسکا مرجھایا دل دوبارہ نئے سرے سے کھل اٹھا ہو ،خزاں کے بعد بہار کا موسم آ گیا ہو _ اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ اس بات کی گواہ تھی کہ وہ نئی زندگی کی شروعات کرنے کے لئے پرجوش ہے _ طوبا نکاح پر نکاح کر کے گناہ کر رہی تھی _ اسکا ضمیر بار بار اسے ملامت کر رہا تھا _ مگر دنیا کی رسم و رواج اور بدنامی کے خوف نے اسکے ہونٹ دھاگے سے سی رکھے تھے _

احمد جب اپنے کمرے میں داخل ہوا اسے یوں لگا جیسے اسکی زندگی میں اسی دن ، اسی لمحات کی کمی تھی جو آج پوری ہو رہی ہے _

چہرے پر مسکراہٹ بکھرے اپنی نئی زندگی کے آغاز کی امید لیے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا _ سامنے لگے پھولوں کی سیج سے سجے بیڈ پر اسکی زوجہ محترمہ سرخ جوڑے میں ملبوس ، چہرے کو گھونگھٹ سے ڈھانپے بیٹھی اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی _

اس نے ڈھرکتے ہوئے دل کے ساتھ اسے مخاطب کیا _مگر سامنے سے اکھڑے لہجے میں اسکے کانوں میں آواز گونجی _

” کچھ بھی کہنے یا میرے پاس آنے سے پہلے میری ایک بات سن لیں _میرے ساتھ کوئی بھی تعلق بڑھانے سے پہلے میرا ماضی جان لیں میرے دل میں کوئی اور بستا ہے _”
یہ کڑوا سچ سن کر احمد کو لگا جیسے اسکے سارے ارمان چکنا چور ہو گے ہوں مگر پھر بھی وہ اپنا دل بڑا کیے بڑا پن دیکھاتے بولا_

” ماضی ہر انسان کا ہوتا ہے _ ماضی ماضی ہوتا ہے اسے اپنے حال اور مستقبل میں شامل کر کے اسے برباد نہیں کرنا چاہیے _ آپ بھی اپنے ماضی کو بھلا کر اس رشتے کو خوشی خوشی تسلیم کر لیں میں آپکو خوش رکھنے کی بھرپور کوشش کروں گا_ احمد اک سمجھدار اور سلجھا انسان تھا اس لیے جذباتی پن سے گریز کرتے ہوئے سمجھداری سے بات کو سنبھالتے بولا _

احمد کی بات سن کر طوبا نفی میں سر ہلا کر بولی _ ” ایسا ہونا ناممکن ہے _میں ماضی کو بھلا بھی دیتی اور اس رشتے کو خوشی خوشی نبھا بھی لیتی اگر یہ نکاح نکاح پر نہ ہوا ہوتا _”
طوبا نے بڑی بہادری کے ساتھ اسے سچ بتایا جسے سن پر احمد کے پاؤں تلے زمین نکل گئی _ اگر یہ سچ وہ اپنے باپ بھائی کو پہلے بتا دیتی تو آج احمد کا دل نہ ٹوٹتا وہ مزید نہ بکھرتا_

طوبا کی بات سن کر احمد بےساخت ہوا _ اسکی بات ناقابل برداشت تھی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اونچی آواز میں اس سے مخاطب ہوا_

” نکاح پر نکاح اس جرم کی سزا جانتی ہو تم_ اتنی ہمت جو تم مجھے ابھی دیکھا رہی ہو اگر اتنی ہمت اپنے ماں باپ کے سامنے دیکھائی ہوتی تو میں اور تم آج یوں اس طرح رسوا نہ ہو ریے ہوتے _”

” میری ہمت ہر انگلی اٹھانے کے بجائے اگر آپ نے اس بات پر غور کیا ہوتا آپ جیسے بوڑھے اور عام انسان کو اگر کوئی اپنی جوان بیٹی کا ہاتھ دے رہا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی وجہ چھپی ہو گی _ مگر نہیں اپنے سے کم عمر کی لڑکی کا سوچ کر آپکے منہ میں پانی آ گیا ہوگا _”

طوبا کے کہے آخری الفاظ اس کے دل پر کانٹے کی طرح چھبے _ وہ فورا کمرے سے باہر نکلا اگر وہاں مزید روکتا تو زمین بوس ہو جاتا_ احمد کے دل میں عجیب سی گھبراہٹ طاری ہوئی _ کمرے کے باہر راہداری میں چلنے لگا اور چلتے چلتے مین دروازہ کھول کر گھر سے باہر نکل گیا_ پھر سے وہ تھا اور تنہائی تھی _ یہ بات اس کے دل میں کانٹے کی طرح چب رہی تھی کہ اس کے گھر میں اسکے بیڈ پر جو لڑکی اس وقت بیٹھی ہے وہ کسی اور کی امانت ہے_ رات کے گیارہ بج رئے تھے صبح ہونے سے پہلے وہ اس لڑکی کو طلاق دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کر دینا چاہتا تھا صرف اس لڑکی کی غزت کی خاطر ، صرف اس خاطر کہیں سچ سامنے آنے پر ہمارے معاشرے کے لوگ طوبا پر یہ تمہت نہ لگا سکیں کہ یہ لڑکی اک رات کسی غیر شخص کے ساتھ گزار کر آئی ہے _ دو گھنٹے باہر گزارنے کے بعد وہ واپس گھر لوٹا _ طلاق کے کاغذات یوں راتوں رات بننا ناممکن تھے _ وہ جب گھر لوٹا تو اکیلا نہ لوٹا طوبا کے باپ اور بھائی کو ساتھ لے کر لوٹا _ ان کے چہرے پر پھیلے غصے اور نفرت کے اثرات دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا احمد انھیں ساری حقیقت سے آگاہ کر چکا ہے _
طوبا دلہن کے لباس میں اپنے باپ بھائی کے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے بیٹھی تھی _ احمد کے سامنے شیرنی کی طرح ڈارتی طوبا باپ بھائی کے سامنے بیھگی بلی بنی تھی _ رحمان صاحب شرمندگی کے مارے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے نیچھے زمین پر سکٹے کی عالم بیٹھے اپنی بیٹی کی حرکت پر شرمندہ تھے ، زبیر اک غیرت مند بھائی کی طرح دل ہی دل میں طوبا کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے منصوبے تیار کر رہا تھا _منصوبوں کی تکمیل اسکی آنکھوں کی سرخی اور وحشیت سے جھلک رہی تھی _
“چل گھر آج تیرا قصہ ختم کر کے تیرے گندے خون سے اپنے خاندان پر لگی بدنامی کے داغ کو دھو ڈالوں گا_”
اپنا ضبط ٹورتے ہوئے اپنے منصوبے کو اسکے انجام تک پہنچانے کے لیے زبیر نے اپنی بہن کو اسکی کلائی سے بےدردی سے پکڑے وحشیت زدہ لہجے میں بولا_ بھائی کی باتوں سے اپنے قتل کی خوشبو سونگھتی طوبا اپنے بھائی کے پاؤں میں گر کر گڑگڑاتے ہوئے رحم کی بھیگ مانگنے لگی_ مگر غیرت کے سامنے رحم کی معافی ناقابل قبول ہوتی ہے _ وہ طوبا کو گھسیٹے ہوئے باہر کی جانب بڑھا وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی رہ گئی _ اسکی وحشیت کے سامنے سیدھا سادہ احمد بٹ کی طرح خاموش کھڑا رہا_ احمد روتے بےبس رحمان صاحب کو دلاسہ دینے کی خاطر انکے پاس زمین پر بیٹھا اور انھیں تسلی اور حقیقت کا آہینہ دیکھاتے بولا_

” میں جانتا ہوں آپ کی بیٹی کا جرم ناقابل معافی ہے مگر اس جرم میں کہیں نہ کہیں آپ بھی برابر کے شریک ہیں اگر آپ نے اپنی بیٹی کی مرضی کا پاس رکھا ہوتا تو شاید آج آپکو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا _آپکی غزت میری غزت ہے یہ بات اسی گھر میں دفن رہے گی میں کل خلع کے کاغذات آپکے گھر بھیجوا دوں گا اپنی غزت بجانے کی خاطر آپ جو چاہیں مجھ پر ہر قسم کا الزام لگا کر اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ رخصت کر سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں _”

احمد کی بات سن کر رحمان صاحب کی آنکھوں میں روکے آنسو تیزی سے بہنے لگے _ احمد جیسے غطیم لوگ بہت کم اس دنیا میں دیکھنے کو ملتے ہیں _ اسکا بڑا پن دیکھ کر وہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے روتے بولے _

“بہت بدنصیب ہے میری بیٹی جس کی قسمت میں آپ جیسا ہیرا شخص نہیں بلکہ وہ جواری لڑکا ہے _ کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کے دشمن نہیں ہوتے اگر وہ انھیں کسی کام سے منع کرتے ہیں تو اس میں کوئی وجہ کوئی مصلحت چھپی ہوتی ہے مگر میری بیٹی جیسی بدنصیب اولاد اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے _ آفریدی کا رشتہ منع کرنے کی یہی وجہ تھی وہ اک جواری لڑکا ہے مگر میری بیٹی کی قسمت میں شاید اک جواری لڑکا ہی لکھا ہے_ میری عزت کا مان رکھا آپ نے اللہ آپکو اس نیکی کا اجر دے_”
آسمان کی جانب اپنا چہرہ بلند کیے اپنی جولی پھیلا کر رحمان صاحب نے احمد کو دیگر دعائیں دی_

احمد نے وعدے کے مطابق نکاح کے اگلے دن ہی طوبا کو طلاق کے کاغذات بھیجوا دیئے _ رحمان صاحب نے نوشین بیگم اور منان صاحب کو طوبا اور آفریدی کے خفیہ نکاح کے بارے میں آگاہ کیا _ آفریدی کے دوست جو اس نکاح کے گواہ تھے پولیس کے ڈر سے سب کو سب سچ بتا دیا _ مزید بدنامی سے بچنے کے لئے منان صاحب طوبا کو اپنی بہو تسلیم کرتے اپنے گھر لے گے _ رحمان صاحب نے اپنی بیٹی سے اپنا ہر تعلق توڑ کر اسے الوادع کر دیا _
” ابو آپ چاہیں مجھ سے خفا ہو جائیں مجھے ماریں پیٹیں مگر مجھے خود سے لاتعلق مت کریں _ مجھے معاف کر دیں ابو _” باپ کا فیصلہ سن کر طوبا کا دل کٹ کر رہ گیا _ وہ رحمان صاحب کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑے التجا بولی _

” غلط محبت ، غلط فیصلوں کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے بیٹی _ _ _ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے نہ معافی _ _ نہ دعا _ _ ” رحمان صاحب نے آہستگی سے کہہ کر طوبا سے اپنی غمزدہ نظریں پھیر لی _

* * *

اسکی نارسائی کا دکھ
اسکی تنہائی کا دکھ
کوئی بھی سمجھنے والا نہیں تھا_
اب احمد کو تنہائی نہیں کاٹٹی تھی دھیرے دھیرے اسے اب تنہائی کی عادی ہونے لگی تھی _ تنہائی اس کے اکیلے پن کی ساتھی تھی _
اس کا زیادہ وقت اب سڑک اور پارکوں میں گزرتا_ آفس میں لیٹ نائٹ ڈیوٹی وہ اپنی خوشی سے کر رہا تھا _ اس رات بھی جب احمد دفتر سے واپس گھر لوٹ رہا تھا اسکی نگاہ سڑک کے درمیان اک لاش پر پڑی جس کے اردگرد بچے بیٹھے رو رئے تھے_ وہ گاڑی سے اتر کر ان کے پاس جا کھڑا ہوا_ مرنے والی اک عورت تھی اس کے حلیے سے لگ رہا تھا وہ اک بھکارن ہے _ دو لڑکے جو لگ بھگ تیرہ اور پندرہ سال کے تھے اور اک لڑکی لگ بھگ کچھ ان لڑکوں کی ہی ہم عمر تھی احمد کو دیکھ کر فورا اس سے اپنی ماں کی جان کی بھیگ مانگنے لگے_
گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر احمد نے اس بھکارن کی نبض چیک کی جو کافی دیر سے ٹھنڈی پڑ چکی تھی _
کار سے ٹکرانے کے باعث اس کے سر پر گہری چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے خون کافی زیادہ بہہ چکا تھا وقت پر طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اسکی موت کافی دیر پہلے ہی ہو چکی تھی مگر ان بچوں کی تسلی کی خاطر احمد اسے ہسپتال لے گیا_ وہاں ڈاکٹر سے اپنی ماں کی موت کی خبر سن کر بچے احمد کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روتے بولے_
” اللہ نے آج ہم سے ہمارا آخری سہارا چھین کر ہمیں مکمل طور پر یتیم کر دیا ہے اب ہم کہاں جائیں گے _” بچے نے روتے ہوئے کہا _
احمد اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس بےسہارا بچے کے سر پر رکھے اسے دلاسہ دیتے بولا _

“رو مت بچوں آج سے میں ہی تمہارا باپ اور تمہاری ماں ہوں _ تم تیوں خود کو یتیم نہ سمجھنا _”

یتیم بچوں کا سہارا بن کر احمد کو اپنے جینے کا اک مقصد مل گیا _ احمد یہ بات اچھے سے سمجھ چکا تھا اللہ تعالٰی اسے اپنے ان نیک بندوں کی صفات میں شامل کرنا چاہتا ہے جس کی زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے _ ہر انسان کی زندگی کا کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوتا ہے جس مقصد کے تحت وہ اپنی منزل تک پہنچتا ہے اسی طرح احمد کی زندگی کا اک مقصد تھا دوسروں کی مدد کرنا _ ان بچوں کو اپنے ہمقدم رکھے وہ اپنے گھر کی طرف بڑھا اب اس کے چہرے پر نہ کوئی اداسی کے بادل تھے ، نہ تنہائی تھی _ صرف اطمینان اور مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھری تھی_ یہی اسکی سب سے بڑی جیت تھی_ وہ بچوں کا اور بچے اسکا سہارا بن گے تھے_

* * *

طوبا اپنے سسرال کی دہلیز پر بیٹھی آفریدی کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی _ آفریدی کے واپس آنے کی آس ، اک امید اب بھی اس کے دل میں زندہ تھی _ محبوب کی بےوفاہی دل کہاں تسلیم کرتا ہے _ آج نہیں تو کل آفریدی کو واپس اسی محلے اسی گلی میں لوٹ کر آنا تھا _

ختم شدہ__!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں