دانیال حسن چغتائی
ہنستے مسکراتے پیارے پیارے اچھے اور بہادر بچوں، آج ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی پڑھیں گے جو قرآن مجید کے ساتویں پارے میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، اللہ کے پیارے اور پکے دوست تھے اور اسی دوستی کی وجہ سے اللہ نے انہیں خلیل اللہ کا لقب دیا تھا۔
پیارے بچو، جس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی قوم اس وقت اللہ کو بالکل بھول چکی تھی اور وہ لوگ بے شمار دیوی دیوتاؤں اور اپنے بادشاہ کی عبادت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چاند تاروں اور سورج کی بھی پرستش کرتے تھے۔ وہ اتنے بیوقوف تھے کہ یہ بت خود ہی بناتے اور خود ہی ان کی عبادت کرتے ۔ انہوں نے جگہ جگہ عبادت کے لیے بہت رکھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا بہت شہر کا محافظ تھا اور باقی بتوں کا سردار تھا۔ لوگ ان بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے، ان سے مدد مانگتے اور ان کی نذر نیاز دیتے۔ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے وقت سب سے بڑا بت ننار تھا جو ایک اونچی پہاڑی پر مندر میں رکھا گیا تھا۔ یہ مندر کیا تھا، ایک پورا محل تھا۔ لوگوں نے اس مندر کے نام اپنی قیمتی جائیدادیں لگا رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ اس مندر پر ہر قسم کی اشیاء بھی نذر کر دیتے۔ اس میں امیر غریب کی کوئی تخصیص نہ تھی۔
اس معاشرے میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے مگر ان میں اکثریت تاجروں کی تھی۔ جن کا مقصد صرف اور صرف دولت کمانا تھا اور اس معاملے میں وہ انتہا کے لالچی تھے۔ ان کے اکثر جھگڑے مال و دولت اور پیسے کے لیے ہوتے تھے۔ ان لوگوں میں بہت بڑے بڑے کاریگر بھی تھے جو بت تراشتے اور خوبصورت عمارتیں بناتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاء جن میں برتن بنانا وغیرہ شامل ہے، وہ بھی ان کے کاموں میں شامل تھا۔ آپس کے اختلافات سے قطع نظر یہ سب لوگ بت پرستی وہ واحد چیز تھی، جس پر یہ متفق تھے۔ وہ اپنے بادشاہ کو خدا کا درجہ دیتے تھے۔ وہ بادشاہ جس کا نام نمرود تھا اور اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کہا تھا کہ میں زندہ کو مردہ کر کے دکھا سکتا ہوں اور مردہ کو زندہ کر سکتا ہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آذر تھا۔ وہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار تھا یا یوں سمجھ لیں کہ نمرود کے دربار میں وزیر تھا۔ آپ کا والد شہر کے سب سے بڑے بت خانے کا سربراہ تھا وہ خود بت پرستی کرتا اور لوگوں کو بھی بت پرستی کی دعوت دیتا۔ اس کے علاوہ بت تراشنا بھی اس کے فن میں شامل تھا۔ اللہ کی قدرت کہ وہ اس جیسے کافر کے گھر میں پیدا ہوئے جو اتنا بڑا بت پرست تھا مگر اللہ نے آپ علیہ السلام کو اپنی بندگی کرنے والا اور بت شکن پیدا فرمایا۔
ہوش سنبھالنے پر آپ نے اپنے گھر میں سورج چاند تارے اور بتوں کی پرستش دیکھی اور لوگوں کو دیکھا کہ وہ اللہ کو بھلا بیٹھے ہیں، اور دنیا جہان کی تمام خرابیاں ان میں پائی جاتی ہیں۔
اللہ نے حضرت ابراہیم کو سوچنے والا دماغ دیا تھا جس سے ان کو معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ غلط راہ پر چل رہے ہیں۔ مگر درست راستہ کیا ہے یہ کون بتائے گا؟ اللہ کون ہے؟ یہ بتانے والا کوئی نہیں تھا؟ یہ سارا واقعہ قرآن مجید کے ساتویں پارے میں سورۃ الانعام میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سورج چاند تارے اور دیگر مظاہر فطرت رب کیسے ہو سکتے ہیں ؟ وہ ان ہی خیالات میں پریشان تھے کہ انہوں نے ایک رات لیٹے ہوئے فلک بوس وسیع و عریض آسمان پر ایک چمکتے دمکتے ستارے کو دیکھا۔ اپنے ان ہی خیالات کے تحت وہ یہ سوچنے لگے کہ شاید یہی چمکتا ہوا ستارہ رب ہے کیونکہ باقی ستاروں کی چمک اس سے ماند ہے اور اس کی روشنی آسمان پر سب سے زیادہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قوم کی بات سچ ہو اور کیا پتا یہی روشن ستارہ ہی رب کی خصوصیات رکھتا ہو۔ وہ ابھی انہی خیالات میں غرقاں تھے کہ اچانک ستارے کی روشنی مدھم پڑنا شروع ہوگئی۔ روشنی کم ہوتے ہوتے تھوڑی دیر بعد وہ ستارہ غائب ہوگیا تو پھر وہ سوچنے لگے کہ کیا غائب ہو جانے والا رب ہو سکتا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
یوں ہی تھوڑی دیر بعد انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو اس کے بارے میں خیال کرنے لگے کہ شاید یہی رب ہو کہ اس کی روشنی باقی سب ستاروں سے زیادہ ہے۔ لیکن جیسے ہی صبح کا دھندلکا چھانے لگا اور رات ختم ہونے لگی تو چاند بھی غائب ہونے لگا تو آپ پھر یہی سوچنے لگے کہ یہ بھی غائب ہوگیا اور غائب ہونے والی چیز رب نہیں ہو سکتی۔
اس کے بعد صبح ہوئی تو سورج کو مشرق سے طلوع ہوتے دیکھا تو سورج کے بارے میں بھی یہی خیال کر بیٹھے کہ یہ سب سے بڑا ہے۔ یہی رب ہے۔ کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے، طاقتور ہے، اسے ظاہری آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔ لیکن جوں ہی دن ڈھلتا گیا تو سورج مغرب کی طرف غروب ہونا شروع ہوگیا تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ سوچنے لگے کہ اگر یہ بھی رب نہیں تو رب کون ہے جو اس سارے نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔
ہر طرف سے مایوس ہونے پر انہوں نے اللہ سے سیدھے راستے کی دعا کی۔ یا اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا ورنہ میں بھی ان کے ساتھ مل کر گمراہ ہو جاؤں گا اور بھٹک جاؤں گا۔ ان کی دعا کے بعد اللہ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اللہ واحد لا شریک ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا نہ کوئی اس کا رشتہ دار ہے، نہ کوئی اس کا دوست ہے وہ ہمیشہ سے اکیلا ہے اور اس کائنات کا واحد مالک ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اسی نے یہ ساری کائنات بنائی ہے اور وہ اسے اکیلا ہی چلا رہا ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ باتیں بتائیں کہ تم جن خداؤں کو خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو، انہی کو پوجتے ہو، ان کو مانتے ہو، میرا ان سب سے سے کوئی واسطہ نہیں۔
جب قوم نے یہ باتیں سنیں تو ان کے لیے یہ سب باتیں نئی تھیں تو وہ آپ کے دشمن بن گئے۔ وہ تو نسلوں سے بت پرستی کے عادی تھے۔ ان کے لئے اس نامانوس آواز کو تسلیم کرنا خاصا مشکل تھا مگر اس سب کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ آپ نے اپنی قوم کو بتایا کہ میں صرف اللہ کو رب مانتا ہوں جو زمین اور آسمان کا مالک ہے۔ اس کی صفات میں اور اختیار میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور نہ میں مشرک ہوں۔
مشرک سے مراد کسی کو اللہ کا شریک سمجھنا یا اللہ جیسی صفات کسی اور میں تسلیم کرنا ہے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کو خدا سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ جو کام اللہ کر سکتا ہے، اسی طرح کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ یہ شرک کہلاتا ہے جو سب سے بڑا گناہ ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں ہوگی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو بھی روکا کہ وہ بت کریں۔ انہیں دکھ ہوتا کہ ان کا باپ جگہ جگہ مختلف خداؤں سے اپنی ضروریات مانگتا۔ موقع ملنے پر وہ اپنے باپ کو منع بھی کرتے تھے۔
اسی طرح اپنے باپ سے کہا کہ آپ اور آپ کی قوم غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ آپ ان جھوٹے خداؤں کی اور بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ جو کسی کے لئے نہ اچھا کر سکتے ہیں نہ برا کر سکتے ہیں۔ یہ تو خود پتھروں کے بے بس ٹکڑے ہیں اور آپ ان کو خدا سمجھ کر ان کے سامنے اپنے مسائل پیش کرتے ہیں۔ میرا آپ کی عبادت اور جھوٹے معبودوں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا تعلق اللہ سے ہے۔ مجھے وہ علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا۔ میری بات مان لیں اور سیدھا راستہ اپنا لیں۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ اللہ بھی آپ سے ناراض ہو جائے گا اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں گے اور نتیجتاً جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ مگر آ ذر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ الٹا آپ سے ناراض ہو گیا اور غصے میں کہا کہ اگر اب تم نے میرے آباء و اجداد کے معبودوں کو برا بھلا کہا تو میں تجھے پتھر کے ساتھ مار دوں گا ۔ مگر جب اس کی دھمکی کا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی اثر نہ ہوا تو آپ کے باپ نے آپ کو کہا کہ میرا گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو۔
آپ نے اس کا گھر چھوڑ دیا مگر اللہ سے آپ کی معافی کی دعا کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اللہ مہربان ہے، میں اپنے رب کو پکاروں گا، اللہ کو پکاروں گا، لیکن اللہ بھی آپ کے معاملے میں نہ مانے تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید کی اسی سورۃ میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے لیے دعا اس لیے کی کہ وہ نرم دل کے تھے۔ معاف کرنے والے تھے۔ باپ کے برا بھلا کہنے کے باوجود اس کے لئے اچھائی کی دعا کرتے رہے۔ اس کے اسلام قبول کرنے کی دعا کرتے رہے۔
پیارے بچو، جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب گھر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اپنے والد کا گھر چھوڑ دیا اور قریہ قریہ گلی گلی اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے رہے۔ جہاں بھی جاتے وہیں لوگوں کو بتاتے کہ ان بے مقصد بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر اللہ رب العزت کی عبادت کریں اور جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دیں، اسی میں ہی ان کی نجات اور فلاح ہے۔
مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی نئی چیز کو خواہ وہ ہی حق ہی کیوں نہ ہو، تسلیم کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔
آپ کی قوم آپ کی سخت مخالف بن گئی۔ مگر آپ کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ آخر کار قوم کے لوگ اس وقت کے بادشاہ جسے نمرود کہا جاتا تھا، کے پاس جا پہنچے۔ بادشاہ وقت جس نے خود کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا، اس کے لئے بھی یہ بات باعث تشویش تھی۔
اس نے سرکاری ہرکارے بھیج کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں طلب کر لیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دربار میں حاضر ہوئے تو نمرود نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا۔
آپ علیہ السلام نے ببانگ دہل بھرے دربار میں اسی طرح توحید کا اعلان کیا جو آپ کا طرہ امتیاز تھا۔
وقت کا بادشاہ نمرود یہ سب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے اپنی خدائ کے دعوے کی تصدیق میں سزائے موت کے ایک قیدی کو معاف کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ بھی اللہ کی طرح زندہ بھی کر سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے۔
مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے جھوٹے مظاہرے سے مرعوب نہیں ہوئے اور آپ نے فرمایا اگر تم سچے خدا ہو تو سورج کو مشرق کے بجائے مغرب سے نکال کر دکھاؤ جس پر وہ بغلیں جھانکنے لگا۔
غرض ہر طرح سے ناکامی کے بعد اس نے انتقام لینے کے لئے آگ جلانے کا حکم دیا جو چالیس دن تک جلتی رہی۔ مگر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس میں ڈالا گیا تو وہ اللہ کے حکم پر ٹھنڈی ہو گئی اور اس نے آپ علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ جو آپ کے پیغام کی صداقت کی کھلی دلیل تھی مگر ان ہٹ دھرم لوگوں نے نہ ماننا تھا نہ وہ مانے۔
اس کے علاوہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے ہر حکم کی تعمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ جب بیوی اور ننھے بچے کو بے آباد جنگل میں چھوڑنے کا حکم ملا تو آپ نے ایک لمحہ نہیں لگایا۔ اسی طرح آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقدس فریضہ سر انجام دیا۔ اور وہ لمحہ کون بھول سکتا ہے جب منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والے بیٹے کے گلے پر چھُری پھیرنے کا حکم دیا تو آپ نے اطاعت الہٰی میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ آج ہم اسی واقعہ کی یاد میں عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔
حضرت ابراہیم کی انہی قربانیوں کے صلے میں اللہ نے ان کی دو دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا۔ ایک تو مکہ کے لئے دعا تھی کہ یہ شہر ہمیشہ آباد رہے، آج ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ دنیا کے چند بڑے آباد شہروں میں سے ایک ہے، اسی طرح آپ کی نسل میں چار ہزار سے زائد انبیاء ہوئے جس کی نسبت سے آپ جد الانبیاء کہلائے۔ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ ہی کی نسل میں سے ہیں۔ یہ بھی آپ کی دعا کا نتیجہ ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور ہم بھی انہی کی طرح حق کا پرچار کر سکیں۔ آمین