فاکہہ قمر
ننھی بانو کو پیار سے سب ببلی کہتے تھے وہ ہر وقت کھیل اور اپنی شرارتوں میں مگن رہتی تھی۔گاﺅں کی پرسکون آب و ہوا میں سارا دن ببلی اپنی ہم عمر سہیلیوں کے ساتھ کھیل کود میں جتی رہتی تھی ۔ببلی کو کسی چیز کی ہوش نہیں ہوتی تھی سوائے نت نئے کپڑوں اورچیزوں کے۔
اس کی واحد دلچسپی کا سامان یہی تھا کہ جہاںکہیںنئی چمکتی خوبصورت چیزوں کو دیکھتی ادھر کھینچی چلی جاتی تھی۔ کھیل کے دوران ببلی نے اپنی ہم جولی کے پاس سنہری رنگ کی نئی چمکتی چوڑیاں دیکھیں تو اس کا دل للچانے لگا ۔
”حنا!یہ چوڑیاں تم نے کہاں سے لی ہیں؟“
دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ببلی نے اپنی دوست سے پوچھ ہی لیا۔
”ارے!یہ تو میں نے شہر سے لی ہیں۔“
حنا نے اتراتے ہوئے چوڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”شہر سے؟؟؟“
ببلی نے تعجب سے پوچھا۔
”ہاں بھئی ،شہر سے۔کیا تمھیں معلوم ہے کہ شہر والے بازار میں اتنی ڈھیر ساری چیزیں ہوتی ہیں۔“
حنا نے ہاتھ لمبا کر کے اندازے سے بتایا۔
”واہ! کیا بات ہے۔“
ببلی کے منہ میں پانی بھر آیا تھا۔
”تمھیں پتا ہے شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک نئی اور خوبصورت چیزیں ہوتی ہیں۔جو ایک وفعہ دیکھے تو بس دیکھتا ہی رہ جائے ۔“
حنا نے خوب بڑھا چڑھا کر شہر کے بازار کی تعریفیں کر ڈالیں۔
”ہائے سچی!میں بھی جاﺅں گی۔“
ببلی نے آنکھیں میچتے ہوئے خیال ہی خیال میںبازار کا نظارہ کرتے ہوئے عہدکر لیا۔
”ہاں ،ہاں تم ضرور جانا۔تمھیں بڑا مزہ آئے گا۔“
حنا نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
”کدھر جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں؟“
امی نے قریب سے گزرتے ہوئے سنا تو استفسار کرنے لگی۔
”امی!مجھے شہر جانا ہے وہ بھی آج اور ابھی اسی وقت۔“
ببلی نے مچلتے ہوئے امی سے فریاد کی۔
”ہائے!باﺅلی ہوگئی ہے کیا؟شہر کیوں جانا ہے اور وہ بھی ابھی کے ابھی؟“
امی نے ببلی کے اصرار کی وجہ دریافت کی۔
”امی!مجھے شہر والے بازار جانا ہے اور بالکل ایسی بلکہ اس سے بھی زیادہ اچھی اور پیاری والی چوڑیاں لینی ہیں ۔“
ببلی نے پاس کھڑی حنا کی چوڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امی سے ضدکی۔
”اوہ اچھا!میں سمجھی عید کی تیاری کے لیے جانا ہے۔“
ببلی کی امی کو سارا معاملہ سمجھ میں آگیا تھاکہ ان کی بیٹی اپنی سہیلی کی چوڑیاں دیکھ کر مچل گئی ہے اور خود بھی ویسی ہی لینا چاہتی ہے۔
”چلیں امی!ابھی چلتے ہیں۔“
ببلی نے امی کا ہاتھ پکڑ کر لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے کہا۔
”ارے،ارے آرام سے،تم کیا ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑی چلی جارہی ہو۔صبر سے کام لو۔شام ہونے والی ہے روزہ کھلنے والا ہے ،یہ کوئی وقت ہے بازار جانے کا۔ آج نہیںہم اتوار کو چلیں گے۔“
امی نے ببلی کو سرزنش کرتے ہوئے اتوار کو جانے کا پروگرام بنا لیا۔
امی نےاپنی اکلوتی بیٹی کی خوشی کی خاطرحامی بھرلی تھی وگرنہ رمضان میں روزہ رکھ کر بازار جانا ”کے ٹو“ کو سر کرنے کے مترادف تھا۔
ببلی تو پھولے نہیں سما رہی تھی۔پورے گھر میں دوڑتی پھر رہی تھی جیسے کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔
پورا ہفتہ ببلی نے جلے پیر کی بلی کی مانند گن گن کر گزارا اورپھراللہ اللہ کر کے اتوار کا دن آن پہنچا۔
صبح سویرے ہی ببلی اپنی امی کے ہمراہ شہر کو روانہ ہوگئی تھی۔
شہر پہنچتے ہی ببلی اور اس کی امی نے بازار کی راہ لی تھی۔بازار میں داخل ہوتے ہی ببلی کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میںآگئی ہو۔ہر سوچمکتی دمکتی چیزیں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔یہ نظارے اس قدر دل فریب تھے کہ ببلی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سارا بازار ہی اٹھا کر ساتھ لے جائے۔ببلی نے ایک دکان پر بالوں پر لگانے والا کلپ دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔اس کلپ پر لگے موتیوں نے ببلی کی آنکھوں کوخیرہ کردیا تھا۔
”امی!مجھے یہ لیناہے۔“
ببلی نے امی کو ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔
”بھائی!یہ کتنے کا ہے؟“
امی نے دکاندار سے نرخ پوچھے۔
”باجی!یہ چارسو روپے کا ہے۔“
دکاندار نے ریٹ بتادیا۔
”ہائے اللہ!چار سو روپے؟یہ اتنا مہنگا کیوں ہے؟کیا اس پر ہیرے موتی لگے ہوئے ہیں؟رمضان کیا آیا ہے تم لوگوں نے لوٹ مچا دی ہے،توبہ اتنی زیادہ قیمتیں بڑھا دی ہیں۔“
ببلی کی امی نے تعجب سے کلپ کو دیکھتے ہوئے دکاندار سے اسفتسار کیا۔
”باجی!یہ دیکھو موتی لگے ہیں،بالکل اصل اور سچے موتی ہیںاور ویسے بھی یہی تو دن ہوتے ہیں کمائی کے عید کی خوشی میں۔۔۔ لے لو باجی اتنا مہنگا تونہیں ہے۔“
دکاندار نے اپنی چیز کی تعریف کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملا تے ہوئے عید سے پہلے کے احوال بتائے۔
”رہنے دو بھائی ،ہمیںنہیں لینا اتنا قیمتی کلپ۔“
ببلی کی امی نے کلپ واپس رکھتے ہوئے کہا۔
اتنی بحث و مباحثہ کے بعد بھی ببلی کو کلپ نہیں ملا تھا۔اس کا سورج مکھی جیسا کھلتا ہوا چہرہ مرجھائے ہوئے پھول کی مانند ہوگیا تھا۔ببلی کو یہ کلپ پہلی ہی نظر میں بھا گیا تھا اور وہ اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی۔ببلی کی امی دوسری دکان کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ دکاندار دوسرے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوگیا تھا لیکن ببلی وہیں پر بت بنی کھڑی تھی۔نہ جانے ببلی کو کیا سوجھی لیکن اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا رسک لینے کی ٹھانی۔ببلی نے سب کی نظر بچا کر کلپ کو اپنی جیب میں چھپا لیا تھا اس کا خٰیال تھا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ببلی کو کلپ ملتے ہی اب قرار آ گیا تھا۔اس کا مرجھایا ہوا چہرہ اب کھل گیا تھا اور آنکھوں میں عجیب سی پراسرار سی چمک عود آئی تھی۔
”ارے،ارے ،پکڑو۔“
”چور،چور،چور۔“
ٓایک دم سے پورے بازار میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف چور،چور کی صدائیں سنائی دینے لگی۔
ببلی ایک دم سے گھبرا گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی آخر ہوا کیا ہے؟جیسے ہی اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو دھک سے رہ گئی۔سب اسی پر نظریں جمائے گھور رہے تھے۔ببلی کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔
”پکڑو اس چور کو۔شرم نہیں آتی کہ بابرکت مہینے میں چوری کرتی ہے۔کدھر ہیں اس کے ماں باپ؟توبہ کیا زمانہ آگیا ہے آج کل چھوٹے بچوںسے چوری کروائی جارہی ہے،استغفراللہ!“
”ارے!میری بچی پر الزام کیوں لگا رہے ہو؟“ببلی کی امی نے شیر کی طرح دھارتے ہوئے اپنی بیٹی کا دفاع کیا۔
”یہ چور ہے ۔اس نے یہاں سے چوری کی ہے۔میں نے خود دیکھا ہے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے اس بچی کو یہاں سے کلپ اٹھاتے اور اپنی جیب کی کرتی میں چھپاتے ہوئے۔“
دکان پر موجود ایک ادھیڑ عمر خاتون نے گواہی دیتے ہوئے کہا۔
ببلی کی اڑی رنگت اور پیلا رنگ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ دال میں ضرورکچھ کالا ہے۔
”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا،لاﺅدیکھاﺅمجھے۔“
امی نے غصے سے ببلی کی جیب کی تلاشی لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں،نہیں ۔میں چور نہیں ہو،میں نے چوری نہیں کی۔“
ببلی مسلسل انکار کررہی تھی اور اپنی تلاشی دینے بھی سے انکاری تھی۔
”ہاہ!یہ تو وہی کلپ ہے؟©©“
امی نے بڑبڑاتے ہوئے جیب سے برآمد کلپ کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
”دیکھا!میں نہ کہتی تھی کہ یہ ماں بیٹی چور ہیں۔“
اڈھیر عمر خاتون نے اونچی آواز میں آس پاس سب لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
ببلی اور اس کی امی سارے بازار کے درمیان مجمع میں کھڑی شرم سے پانی پانی ہورہی تھیں۔
”چلو نکالو جلدی سے جرمانہ۔“
دکاندار نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمانہ طلب کرڈالا۔
”جرمانہ؟“
ببلی کی امی نے ہونقوں کی طرح منہ کھولے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”ہاں،ہاں نکالو جلدی جرمانہ وہ بھی پورے آٹھ سو روپے۔“
دکاندار نے کلپ کی قیمت کو دوگنا بڑھا کر جرمانہ طلب کیا۔
”ہائے اللہ!“
ببلی کی امی نے پریشانی میں اللہ کو یاد کیا۔
”رمضان کے مہینے میں چوری کرتے شرم نہیں آئی اب اللہ یاد آگیا ہے،ہونہہ ۔چلو جلدی سے پیسے نکالو اور یہاں سے چلتی بنو۔“
دکاندار نے ببلی اور اس کی امی کی عزت کا فالودہ بناتے ہوئے ان کو سربازار میںخوب کھری کھری سنائیں۔
مرتے کیا نہ کرتے کہ مصداق مجبوراََببلی کی امی کو پیسے ادا کرنے پڑے۔پورے بازار کے سامنے ان کی عزت خاک میں مل کر رہ گئی تھی وہ بھی ان کی لاڈلی کی بدولت ۔اس لیے واپسی میں ہی عافیت جانتے ہوئے انہوں نے گھر کی راہ لی۔
سارا راستہ خاموشی میں گزرا۔ببلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔امی کی خاموشی کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہورہی تھی۔
گھر آتے ہی امی نے اپنا ہتھیار سنبھالا اور ببلی کی خوب درگت بناتے ہوئے اس کی آﺅ بھگت کر ڈالی۔
”ہائے،امی۔“
”اوئی امی!“
”آہ!امی ی ی ی“
”بچاﺅ،بچاﺅ۔“ان الفاظ کے شورسے سارا گھر گونج رہا تھا۔
ببلی آگے آگے تھی جبکہ امی اپنی چپل سنبھالے اس کے پیچھے تھیں اور ساتھ ساتھ اس کی چھترول بھی جاری تھی۔
”یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری؟“
”یہ سب سیکھایا ہے تمھیں ؟“
”سکول سے یہ سب سیکھ کر آتی ہو؟“
”چور بنو گی؟“
”جھوٹ بولنا سیکھا یا ہے تجھے؟“
”بتاﺅ، اب کرو گی چوری؟“
اس جیسے کئی جملوں سے ببلی کو نوازا گیا تھا۔
”نہیں امی،نہیں ۔نہیں۔اب کبھی نہیں کرو گی۔“
”مجھے معاف کردیں۔میں اب کبھی جھوٹ نہیں بولوں گی نہ ہی چوری کروں گی۔“
ببلی نے مار کھاتے روتے ہوئے پکا عہد کرلیا تھا کہ اب وہ کبھی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں سوچے گی بھی نہیں۔اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ببلی آئندہ کے لیے تائب ہوگئی تھی اور اس وقت کو کوس رہی تھی جب ایک تو اس نے چوری کی اوپر سے اس کو چھپانے کے لیے سینہ زوری کرڈالی جو کہ بہت ہی بھاری ثابت ہوئی۔
”آج کے بعد تم نے جھوٹ بولا یا چوری کرنے کے بارے میں سوچا بھی توہاتھ پاﺅں کے ساتھ زبان بھی کاٹ کر رکھ دوں گی ۔آج کے بعد تم کبھی بھی بازارنہیں جاﺅ گی۔“
امی نے ببلی کو آخری بار خبردار کردیا تھا۔
ببلی بیٹھی رو رہی تھی اور اس وقت کو یاد کررہی تھی جب وہ خوشی خوشی شہر گئی تھی وہ بھی صرف عید کے لیے چوڑیاں لینے لیکن اپنے نفس کے لالچ میں بہک گئی تھی۔رمضان میں شیطان تو قید میں ہوتا ہے لیکن انسان کا اصل امتحان اس کا نفس ہوتا ہے اور افسوس ببلی اپنے نفس کے آگے ہار گئی تھی۔
”پر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔“
﴾ختم شد